تجھ میں اور مجھ میں وہ اب رازو نیاز آئے کہاں؟

اب میسر دھوپ میں ہیں زلف کے سائے کہاں؟

جانے والے سوچ کر جانا کہ بے حد شوخ ہے

کیا پتہ ہے ایسے دل کا کس پہ آ جائے کہاں؟

تیرے میرے گھر میں جو دیوار حائل ہوگئی

تیشۂ پُرزور کو مشکل ہے کہ ڈھائے کہاں؟

تم انا کے پاسباں تھے، ہم بھی غیرت کے امیں

تم جو سُن پائے نہیں تو، ہم بھی کہہ پائے کہاں؟

تیرے پہلو سے جو ہجرت کر کے آیا تھا وہی

بے اماں، بے فیض، بے توقیر دل جائے کہاں؟

مے کدے سے بے اثر نکلے تو اُس کے گھر گئے

ہم کہاں سے پی کے آئے اور چکرائے کہاں؟

اُس کے گھر ہم چائے پہ مدعو تھے، سب اچھا رہا

واپسی پر یاد آیا، رہ گئی چائے کہاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]