تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقۂ خیرالبشر میں ہے

روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے

وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے

اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی

تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے

چھوُ کر میں آؤںگنبدِ خضریٰ کے بام و در

یہ ایک خواب ہے جو مری چشمِ تر میں ہے

دربارِ مصطفیٰ سے مجھے اذن تو ملے

پرواز کی رسائی مرے بال و پر میں ہے

جب سے مدینے جانے کی دل میں کسک ہوئی

تب سے یہ میری سوچ مسلسل سفر میں ہے

بن جائے گی وسیلہ یہ میری نجات کا

شامل جو نعت آپ کی میرے ہُنر میں ہے

فن کو شعورِ نعت ملا جب سے مرتضیٰؔ

اِک روشنی سی زندگی کی رہگزر میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]