ترا ساتھ ہو میسر تو یہ زندگی کنارا

نہ نصیب ہو معیّت تو یہ جیسے بیچ دھارا

میں غریقِ بحرِ غم تھا ترے عشق نے پکارا

یہ اِدھر رہا کنارا یہ ادھر رہا کنارا

نہ ٹھہر سکا تبسم نہ ہی قہقہہ ہمارا

کہ بہت ہی تیز رو ہے غمِ زندگی کا دھارا

تری دوستی نے پرکھا مرا امتحان لے کر

کبھی خنجر آزمایا کبھی آگ سے گزارا

کسی زُلفِ مشک بو نے کسی روئے پُر ضیا نے

مری شام کو سنوارا مری صبح کو نکھارا

گہے اضطرابِ دنیا گہے پیچ و تابِ عقبیٰ

مرے اس اکیلے دل کو غمِ دو جہاں نے مارا

مرے ناخدا بتا کچھ ہے کہاں مرا سفینہ

نہ اِدھر نظرؔ میں ساحل نہ اُدھر کوئی کنارا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]