ترستی تھیں ترے دیدار کو نظریں ، زمانے سے

’’عجب رونق سی چھائی ہے ترے محفل میں آنے سے‘‘

مہکتے ہیں گلی کُوچے ، جدھر سے تُو گزر جائے

ترے جسمِ معطر میں ہیں خوشبُو کے خزانے سے

گدا ہوتے نہیں ہیں مطمئن شاہوں کی چوکھٹ پر

سبھی کا ہے بھرا کاسہ ترے ہی آستانے سے

جو اماں عائشہ کی سوئی کھو جائے اندھیرے میں

تو مل جاتی ہے فوراً ہی تمہارے مسکرانے سے

جنابِ مرتضٰی کی جب نمازِ عصر چھوٹی ہو

پلٹ آتا ہے سُورج آپ کے واپس بلانے سے

گھروں کے بام و در آقا ! جہاں کو نُور دیتے ہیں

جو رہتے ہیں سدا روشن تری محفل سجانے سے

گھرا ہوں بحرِ عصیاں کی تلاطم خیز موجوں میں

کرم کر دیں مرے آقا ! بچا لیں ڈوب جانے سے

کلامِ پاک کی رُو سے منافق ہے ، منافق ہے

جو کترائے مرے آقا ! تمہاری سمت آنے سے

زمانہ اپنی پلکوں پر بٹھاتا ہے جلیل اُس کو

جسے نسبت مودّت کی ہے آقا کے گھرانے سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]