اہلِ طائف ! کیا کِیا ہے اور تُم کو کیا ملا
سنگباری کی ، دعاؤں کا تمہیں تحفہ ملا
عُمر بھر جس نیند کو ترسے ہیں عاشق رات دن
’’خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملا ‘‘
ہو گئی جس کو زیارت خواب میں سرکار کی
مرحبا صد مرحبا ! جنت کا پھر مژدہ ملا
خوش نصیبی کھینچ لائی آپ کے در پر مجھے
دیکھنے کو پھر یہاں پر آپ کا روضہ ملا
آپ کے در کی گدائی کا ملا جن کو شرف
اُن کو رُتبہ بادشاہوں سے کہیں اعلٰی ملا
پڑھ گئے قرآن منبر پر بہت قاری مگر
ابنِ حیدر کو سناں کی نوک پر پڑھنا ملا
اہلِ ایماں پر ہے واجب ہر گھڑی شُکرِ خُدا
ہو گیا احسان ہم پر آپ سا آقا ملا
کس قدر سرشار تھا میں کر سکوں کیونکر بیاں
جب مواجہ پر کھڑا تھا ، قُرب کا لمحہ ملا
رشک کرتا ہے زمانہ اُن کی قسمت پر جلیل
سر پہ رکھنے کو جنہیں نعلین کا تلوا ملا