ترے جمال کو ہم لاجواب کہتے ہیں

ہمِیں نہیں یہ مہ و آفتاب کہتے ہیں

کہاں وہ چہرہ انور کہاں یہ مہرمنیر

ہم آفتاب کو ذروں کا خواب کہتے ہیں

ترے جمال کے اوراق میری ترتیلیں

ترے جمال کو ام الکتاب کہتے ہیں

دل و زبان میں پیوست ہو گئی ایسی

تری کتاب کو اپنی کتاب کہتے ہیں

مرے خلاف تھی رائے کبھی فرشتوں کی

مجھے وہ آج ترا انتخاب کہتے ہیں

الٰہی جب ترا بحرِ کرم ہے بے پایاں

ہم اپنے سہو و خطا کو حباب کہتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]