ترے در سے اُٹھ کے جانا ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا

درِ غیر پہ ٹھکانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا

جہاں یار ہو نہ میرا ، ہو جہاں نہ اُس کا پھیرا

وہاں میرا آنا جانا ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا

ترا ذکرِ خیر دلبر ، ہے ازل سے میرے لب پر

کسی اور کا فسانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا

مجھے کیا غرض جہاں سے ، کہ جہانِ عاشقی ہیں

مرے کام کا زمانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا

جہاں برق کی نظر ہو ، جہاں بجلیوں کا ڈر ہو

وہاں میرا آشیانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا

رکھے کفرِ عشق سے جو کسی دل کو دُور ایسا

ترا حُسنِ کافرانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا

یہ میں جانتا ہوں پُرنمؔ ، جو نہ سمجھیں دوستی کو

مرا اُن سے دوستانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]