تمازتوں میں کرم کی ٹھنڈی پھوار بطحا

اُجاڑ بنجر زمیں پہ فصلِ بہار بطحا

ہر ایک منظر ہی اُس کے منظرکا عکسِ تاباں

ہر ایک منظر کو دے رہا ہے نکھار بطحا

بہت ہی دلکش، نجوم جیسے ہیں سنگ تیرے

بہت ہی نازک مزاج ہیں تیرے خار بطحا

عجب نہیں ہے کہ تیری جانب کھچے چلے ہیں

کہ بے قراروں کی ُتو ہے جائے قرار بطحا

ستم رسیدہ زمیں کی چھاتی کا تنہا وارث

فریب خوردہ جہاں کا ہے اعتبار بطحا

جدھر کو دیکھیں اُدھر کو ہی بھیڑ سی لگی ہے

کہ تیرے مہماں ہیں بے عدد بے شمار بطحا

وہ جِس نے یثرب تجھے مدینہ بنا دیا ہے

وہ یاد ہے نا عظیم ناقہ سوار بطحا

مجھے بھی مقصودؔ اک بلاوا عطا ہوا ہے

یقیں تھا میری سُنے گا آخر پکار بطحا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]