تمنا ہے کہ چوموں ان کے در کو
چلا ہوں بھول کر میں اپنے گھر کو
نگاہیں اڑ گئیں طیبہ سے گھر کو
لیے آغوش میں دیوار و در کو
چمکتی ہے جبیں ان کے گدا کی
کہاں رتبہ ملا یہ تاجور کو
نبی کی نعت کے صدقے میں یا رب
اڑا اونچا مری فکر و نظر کو
نبی کے نام کا مرہم لگا دے
لیے بیٹھا ہے کیوں تو ٹوٹے پر کو
دعاؤں کے پرندے آ رہے ہیں
درودو! کھول دو باب اثر کو
مجیب آئی جو کوئے مصطفیٰ میں
ملی پوشاک گل گرد سفر کو