تمہارے درد سے اپنے ملال سے خائف

گزر رہی ہے عجب ماہ و سال سے خائف

جھجھک رہا ہے دریدہ دہن ، تکلم سے

وہ حال ہے کہ نظر ہے جمال سے خائف

تمہارا حسن مہربان ہے ، مگر دل ہے

تمہارے قرب سے لرزاں وصال سے خائف

حضورِ وقت کھڑا ہے شکست خوردہ جنوں

حسابِ سُود و زیاں کے سوال سے خائف

دھری ہے کرب کی دہلیز پر مسیحائی

طبیبِ عشق ہے اب دل کے حال سے خائف

بھلا کہاں سے کسی واقعے میں ڈھل پاتا

وہ ممکنات سے شاکی ، محال سے خائف

تمہارے حسن کی نوخیزیوں میں چھپتا ہے

مرا وجود ہے اپنے زوال سے خائف

صریرِ خامہ سے آتی ہے جھرجھری ناصر

میں اپنی سوچ سے اپنے خیال سے خائف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]