تمہارے لحن میں ابھروں تو دائمی ٹھہروں

میں اس گمان میں قصہ ہوا ہی چاہتا ہوں

تم کو لکھا ہے تو لکھا ہے روشنائی سے

اب اپنے نام کی خاطر سیا ہی چاہتا ہوں

تو پھوٹتی ہوئی پَو ہے سو مجھ کو کیا جانے

چراغِ وقتِ سحر ہوں بجھا ہی چاہتا ہوں

میں ڈھل رہا تھا سو تجھ کو نہ ڈھالنا چاہا

نگارِ ناز ، میں تیرا بھلا ہی چاہتا ہوں

بھلے نہ تھام مگر ہاتھ چھو ذرا میرا

میں جی رہا ہوں بس اتنی گوا ہی چاہتا ہوں

وہ اور دور تھا جب ایڑیاں اٹھاتا تھا

ادھیڑ عمر ہے اب کج کلا ہی چاہتا ہوں

سفینے، موند سوالات سے بھری آنکھیں

فنا کے گھاٹ جو اترا ، فنا ہی چاہتا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]