تمہارے لمس کی حدت سے تن جھلستا تھا

میں برف پوش ، مگر آگ کو ترستا تھا

پگھل رہا تھا مرا ضبط ، اور ہر قطرہ

مرے وجود پہ تیزاب سا برستا تھا

مرا جنون بھی سر بہ سجود ہے آخر

مرا غرور تو پہلے ہی دست بستہ تھا

تنے ہوئے تھے سبھی تار بربطِ دل کے

وہ انہماک سے ہستی کے تار کستا تھا

وہ جس سے ہو کے گزرنے کی چاہ تھی مجھکو

فقط وجود نہیں تھا ، بقاء کا رستہ تھا

ترے خطوط نے کھینچے تھے زاویے سارے

مرا شعور ترے خال و خد میں بستا تھا

ڈبو دیا ہے تمہاری جوان آتش میں

مرے وجود کا گرچہ مکان خستہ تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]