تمہارے وصل کی یادوں کے ساتھ کاٹتا ہے

تمہارے ہجر میں دل جب بھی رات کاٹتا ہے

کوئی تو اسکی طناب حیات کاٹے گا

جو دوسروں کی طناب حیات کاٹتا ہے

مجھے یقیں ہے محبت کو خوب ترسے گا

جو دو دلوں کے میاں ارتباط کاٹتا ہے

عجیب حسن کا پیکرہے وہ مرا یوسف

اسے جو دیکھتا ہے اپنے ہاتھ کاٹتا ہے

عجب نہیں کہ پرندوں کی آہ لگ جائے

ستم کی آری سےجو جنگلات کاٹتا ہے

وہ جسکے چہرے سے آثار مفلسی ہوں عیاں

تو اس سے کیوں یہ جہاں ارتباط کاٹتا ہے؟

وہ شخص نقشہء دنیا بدل بھی سکتا ہے

جو مسکرا کے رہ مشکلات کاٹتا ہے

تجھے جو دیکھ کے کرتا ہوں ابتدا دن کی

تو راہ غم بھی یہ دل با نشاط کاٹتا ہے

توبا خبر نہیں آداب گفتگو سے کہ تو

میان گفتگو نوری کی بات کاٹتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]