تم نے یہ سوچنا بھی گوارا نہیں کیا؟

غارت گرِ شعُور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں

سیراب صرف جسم کے ہونے پہ خوش رہوں؟

میں کیا کروں حضُور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں

تیرا گِلہ ، کہ سر کو جھکاتا ہوں دیر سے

مجھ کو یہی غرور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں

منظر تراشتا ہوں مناظر سے ماوراء

مجھ سے نہ جاؤ دُور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں

تیرا گناہ یہ ، کہ سراپاء خیال تُو

میرا یہی قصُور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں

اُس کو خبر ہے یونہی نہیں چل دیا تھا میں

اتنا تو ہے ضُرور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں

بیٹھا ہوا ہوں دشتِ ہزیمت میں ہانپتا

دُہری تھکن سے چُور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]