تو اے غافل ابھی محرم نہیں ہے

نشاطِ دل سقوطِ غم نہیں ہے

نگاہِ عشق ہی محرم نہیں ہے

اشارہ حسن کا مبہم نہیں ہے

عذابِ آخرت کو سوچیے کیا

عذابِ زندگی کچھ کم نہیں ہے

ہجومِ غم سے مشکل سانس لینا

یہ جینا موت سے کچھ کم نہیں ہے

گناہوں سے مبرّا ہو تو کیوں کر

فرشتہ کچھ بنی آدم نہیں ہے

کسے مونس کوئی جا کر بتائے

کہ جب دل ہی مرا ہمدم نہیں ہے

نظرؔ اسبابِ دنیا پر ہے تیری

یقیں اللہ پر محکم نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]