تو جس کو مانگتا ہے وہی تاج پوش سر

تیرے حضورِ ناز کبھی کا جھکا چکے

دیکھیں تو کیا چھپا ہے پسِ پردہِ فنا

ائے زندگی تجھے تو بہت آزما چکے

دم بھر کو دم بھی لیں تو نہیں اب مضائقہ

ہم دل کی دسترس سے بہت دور آ چکے

تم آ گئے ہو تو ہو چلو رقصِ مرگ پھر

یوں تو ہزار بار یہ کرتب دکھا چکے

سجدے ٹپک رہے ہیں ابھی تک جبین سے

گرچہ وہ آستان کبھی کا گنوا چکے

اک کھیل تو ملا ترے بے رنگ شہر کو

ہم کو ہمارے رنگ تماشہ بنا چکے

دشتِ جنوں میں لاکھ دراڑیں تھیں اور ہم

ایسی کسی دراڑ میں آخر سما چکے

اک نقشِ آرزو تھا کہ جس کی ہوس میں ہم

اپنے ہی خال و خد کی لکیریں مٹا چکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]