تو جو اس وصف سے منسوب ہوا، خوب ہوا

یعنی فرزندِ خدا خوب ہوا، خوب ہوا

دونوں عالم کا تو ہی شافع ہے اے میرے مسیح

طالبوں کا تو ہی مطلوب ہوا، خوب ہوا

حشر میں فخر نہ کیونکر ہو تری امت کو

جان دینا تجھے مرغوب ہوا، خوب ہوا

کوئی کونین میں نوری نہ ہوا تیرے سوا

جلوۂ حق سے خوش اسلوب ہوا، خوب ہوا

جان دینے میں بجز شکر نہ نکلا منہ سے

صبر میں ہادیِ ایوب ہوا، خوب ہوا

دیکھا یوسف کو تو آنکھیں کھلیں دم میں اُس کی

نورِ بینائیِ یعقوب ہوا، خوب ہوا

تری بخشش میں نہیں شورؔ رہا شک باقی

اپنے عصیاں سے تو محجوب ہوا، خوب ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]