تو قرار جان بتول ہے تری ذات جلوۂ حیدری
ترا عشق عشق حسین ہے تری ہر ادا میں ہے دلبری
ترا نام آل رسول ہے تو علی کے باغ کا پھول ہے
ترا رنگ قادری رنگ ہے تری خوشبو خوشبوئے سنجری
تو غریق ذات قدیم ہے تو کریم ابن کریم ہے
تری شان کتنی عظیم ہے ملا خاندان پیمبری
تری ابتدا تری انتہا کا پتہ کوئی نہ لگا سکا
ملی بحر وحدت و معرفت کی ہے شاہ تجھ کو شناوری
تو سخاوتوں کا ہے آسماں ہے چہار سو تری داستاں
تری ٹھوکروں میں ہے سروری ترے در کو چومے سکندری
تو چراغ محفل عاشقاں تو امام مسجد عارفاں
تو وہ مست جام الست ہے ملی جسکو شان قلندری
تری درسگاہ خلوص میں تری بارگاہ نیاز میں
شب و روز دیتے ہیں حاضری جو ہیں علم و فضل کے عبقری
ترے مرتبے کی بلندیاں جنھیں چھو سکے نہ مرا گماں
مرے حق میں یہ بڑا جرم ہے جو کروں میں تیری برابری
ترے شیخ شاہ حسن میاں جو ہیں قبلۂ دل خاصگاں
دی نگاہ فیض عزیز نے تجھے راہ شوق کی رہبری
ترے آستاں کا وہ رنگ ہے جسے عقل دیکھ کے دنگ ہے
ترے در کی جو کرے چاکری وہی بانٹتا ہے تونگری
وہ بڑا امیر و کبیر ہے جو اس آستاں کا فقیر ہے
مجھے ناز ہے کہ ملی مجھے ترے آستاں کی مجاوری
مری زندگی کو سجا دیا میں تھا خاک سونا بنا دیا
میں نثار تیری نگاہ پر جسے حق نے بخشی ہے زرگری
گل باغِؒ عزتِ بے بہا اسے بخش دے اسے کر عطا
ترا نورؔ تیرے حضور ہے بہ ہزار شوقِ گداگری