تو کیا بارش بھی زہریلی ہوئی ہے

ہماری فصل کیوں نیلی ہوئی ہے

یہ کس نے بال کھولے موسموں کے

یہ رنگت کس لئے پیلی ہوئی ہے

سفر کا لطف بڑھتا جا رہا ہے

زمیں کچھ اور پتھریلی ہوئی ہے

سنہری لگ رہا ہے اک اک پل

کئی صوبوں میں تبدیلی ہوئی ہے

دکھایا ہے اگر سورج نے غصہ

تو بالو اور چمکیلی ہوئی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]