تُم

تُم مری آگ ہو
جس کو پل پل میں رکھتا ہوں روشن
محبت کی مشعل سے
اور اپنی سانسوں کے ایندھن سے
اور اس کے شعلوں سے کلیاں بناتا ہوں
سرخ اور سبز اور جادو بھری
جن کی چنگاریوں سے جُڑی ہیں مری دھڑکنیں
جانِ جاں! تم مری آگ ہو

تُم مری جھیل ہو
جس کے نیلے کناروں کی حد سے پرے
روز اُڑ کے پہنچتا ہوں
گُم سُم پرندوں کے مانند
اور گھنٹوں پاؤں ڈبوئے تمہارے ہرے پانیوں میں
میں شاداب رہتا ہوں
سیراب رہتا ہوں
اے جانِ جاں! تُم مری جھیل ہو

تُم مری خاک ہو
جس سے گُوندھا گیا
میرے تن من کو
اور پھر بنائے گئے میرے سب خال و خد
میرا ہونا تمہاری عطا ہے
اگر تُم نہ ہوتی
تو بے شکل ہوتا میں، بے نام ہوتا
!مری جانِ جاں
تُم مری خاک ہو

تُم مہکتی لہکتی ہوا ہو مری
جس کی اُنگلی پکڑ کر میں بے نام باغوں میں پھرتا ہوں
اور لوٹتا ہی نہیں
جس کی خوشبو سے پُر ہیں مری سانس کے سب دیے
میرا ہر سانس تحفہ تمہارے لیے
کُفر کی تُہمتوں کو ذرا بھول کر
کیوں نہ کہہ دوں کہ ہاں تُم خُدا ہو مری
تُم مہکتی لہکتی ہوا ہو مری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]