تُم بہت گہری اُداسی کی وہ کیفیت ہو

جو مری رُوح پہ اک عمر سے طاری ٹھہری

تُم نے جب لوحِ تنفس پہ لبوں سے لکھا

حرمتِ لوح و قلم جان سے پیاری ٹھہری

کون ہیں ہم کہ تری شئے پہ سوالات کریں

زندگی تھی ، کہ بہر حال تمہاری ٹھہری

تیری اُلجھی ہوئی سانسوں کے بطن سے پھوٹی

وہ خموشی ، کہ جو الفاظ پہ بھاری ٹھہری

عمر بھر اِسم رہا وِرد کی صورت ، لب پر

تُو وہ تسبیح ، کہ ہر حال میں جاری ٹھہری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]