تِرا مفاد بھی ہم کو دکھائی دیتا ہے

وگرنہ کون کسی کو بھلائی دیتا ہے

کبھی غریب کو عزت گنوانی پڑتی ہے

کبھی لگان میں پوری کمائی دیتا ہے

مِری ہی سوچ کی چاندی ہے میرے بالوں میں

قلم کو میرا لہو روشنائی دیتا ہے

کبھی جھمیلے سے باہر نکل سکے تو سُن

وہ غدر جو مِرے اندر سنائی دیتا ہے

مِرا ہی ذہن تجھے ڈھالتا ہے شعروں میں

مِرا خیال تجھے دلربائی دیتا ہے

اِسی لئے کسی کو چاہتا نہیں ہوں میں

کہ آخرش یہی جذبہ جدائی دیتا ہے

اب ایک عرصہ ہوا زیست کو اسیری میں

وہ دیکھئے ہمیں کب تک رہائی دیتا ہے

نہیں ملے گا تمہیں غیر میں کبھی اشعرؔ

وہ اعتبار کہ جو ایک بھائی دیتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]