تڑپتی، رینگتی، لوگوں کے ہاتھوں مر مر کر

نہیں وہ زندگی جائز کہ جو ہو ڈر ڈر کر

تُو آنکھ بھر کے مجھے دیکھ لے مِرے پیارے

وگرنہ بعد میں روئے گا آنکھ بھر بھر کر

اثر نہ سجدوں کا دل کی سیاہیوں پہ ہوا

سِیاہ ہو گئی تیری جبین دھر دھر کر

معاف تجھ کو کروں گا مگر زرا پہلے

تُو میرے پاؤں پکڑ اور کانپ تھر تھر کر

زباں سے آخری دم نکلاعشق کا کلمہ

تجھے یہ کس نے کہا تھا کہ یاد فرفر کر

اے میرے یار! زرا آس پاس دیکھ تو لے

تُو بات بات پہ کہتا ہے عشق کر ،کر ،کر

ہے بارگاہِ محبت، امیر! حدِّ ادب

یوں آستینیں چڑھا کر نہ اتنا ٹر ٹر کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]