تڑپ تو رکھتا ہوں زادِ سفر نہیں رکھتا

کرم حضور! کہ میں بال و پر نہیں رکھتا

میں عرضِ حال کے قابل کہاں مرے آقا !

سوائے عجزِ بیاں، کچھ ہُنر نہیں رکھتا

ستم زدہ ہوں نگاہِ کرم کا طالب ہوں

میں بے اماں ہوں کہیں کوئی گھر نہیں رکھتا

مجھے بھی عشق کی سچائیاں میسر ہوں

نثار کرنے کے قابل میں سر نہیں رکھتا

وہ نالہ کھینچتا رہتا ہوں روز و شب آقا !

جو شور رکھتے ہوئے بھی اثر نہیں رکھتا

زکوٰۃ سیرتِ اطہر کی چاہتا ہے عزیزؔ

گدائے خُلْق ہے آقا !، یہ زر نہیں رکھتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]