تھا قصائی بیل میرا ، تھا یہ انقلاب اُلٹا

جو میں رات سویا اُلٹا تو یہ دیکھا خواب اُلٹا

چھری رکھ کے بیل یک دم ہوا گائے سے یوں گویا

کیا ذبح میں نے شاعر ، یہ ملا عذاب اُلٹا

ہے دل اس کا پار پارہ تو جگر بھی اس کا چھلنی

میں کباب کیا بناؤں ، ہوا دل کباب اُلٹا

نہیں اس کے سر میں بھیجہ اسے کس نے تجھ کو بھیجا

تھا سوال گرچہ سیدھا پہ ملا جواب اُلٹا

کہا گائے نے یہ ہنس کر تُو مریضِ دل ہے مسٹر

کیا پیش یہ تجھے کہ نہ ہو تُو خراب اُلٹا

یہ ہے منحنی سا شاعر نہ کولیسٹرول اس میں

’’تو ہی ذبح کر کے کھا اور تو ہی لے ثواب اُلٹا‘​‘​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

بے اصولی اصول ہے پیارے

یہ تری کیا ہی بھول ہے پیارے کس زباں سے کروں یہ عرض کہ تو پرلے درجے کا فول ہے پیارے واہ یہ تیرا زرق برق لباس گویا ہاتھی کی جھول ہے پیارے تو وہ گل ہے کہ جس میں بو ہی نہیں تو تو گوبھی کا پھول ہے پیارے مجھ کو بلوائیو ڈنر کے […]

مجھ کو رخ کیا دکھا دیا تو نے

لیمپ گویا جلا دیا تو نے ہم نہ سنتے تھے قصۂ دشمن ریڈیو پر سنا دیا تو نے میں بھی اے جاں کوئی ہریجن تھا بزم سے کیوں اٹھا دیا تو نے گا کے محفل میں بے سُرا گانا مجھ کو رونا سکھا دیا تو نے کیا ہی کہنے ہیں تیرے دیدۂ تر ایک نلکہ […]