تھک نہیں سکتے کسی صورت ، مرے مدحت کے ہاتھ

دست گیری کر رہے ہیں جب تری رحمت کے ہاتھ

ملتی رہتی ہے انہیں خیرات تیرے شہر سے

آتے رہتے ہیں یہاں قسمت طلب نکہت کے ہاتھ

بانٹتے ہیں خُشک موسم میں طراوَت کی نوید

فصلِ گُل برکف ہیں دونوں قاسمِ نعمت کے ہاتھ

آپ جیسا جب سخی ہے ، آپ جیسا جب غنی

منفعل ہوں گے کہاں پھر بندۂ حاجت کے ہاتھ

اِک عطا پر منحصر ہے نعت گوئی کا شرف

ورنہ اُن کی نعت اور یہ خامۂ حیرت کے ہاتھ ؟

ممکناتِ حرف سے کِھلتے نہیں مدحت کے رنگ

پُھول ، تارے ٹانکتے رہتے تو ہیں نُدرت کے ہاتھ

مشرقِ جاں کو طلوعِ مہر کی حاجت نہیں

روشنی تفویض کرتے ہیں تری طلعت کے ہاتھ

لمس مٹھی میں مہکتا ہے فرازِ عرش کا

تیری چوکھٹ چُھو رہے ہیں آج کس نسبت کے ہاتھ

فکر میں غلطیاں نہیں ہے بندۂ عصیاں سرشت

عجز کے مونس ہیں تیرے عفو کی قُدرت کے ہاتھ

بحرِ اعجازِ سخن میں مدحتیں ہیں موج موج

کف بہ کف گوہر بھرے ہیں آیہ و سورت کے ہاتھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]