تھی جس کے مقدر میں گدائی ترے در کی

قدرت نے اسے راہ دکھائی ترے در کی

ہر وقت ہے اب جلوہ نمائی ترے در کی

تصویر ہی دل میں اتر آئی ترے در کی

ہیں عرض و سماوات تری ذات کا صدقہ

محتاج ہے یہ ساری خدائی ترے در کی

انوار ہی انوار کا عالم نظر آیا

چلمن جو ذرا میں نے اٹھائی ترے در کی

مشرب ہے مرا تیری طلب تیرا تصور

مسلک ہے مرا صرف گدائی ترے در کی

در سے ترے الله کا در ہم کو ملا

اس اوج کا باعث ہے رسائی ترے در کی

اک نعمت عظمیٰ سے وہ محروم رہ گیا

جس شخص نے خیرات نہ پائی ترے در کی

میں بھول گیا نقش و نگار رخ دنیا

صورت جو مرے سامنے آئی ترے در کی

تازیست ترے در سے مرا سر نہ اٹھے گا

مر جاؤں تو ممکن ہے جدائی ترے در کی

صد شکر کہ میں بھی ہوں ترے در کا

صد فخر کہ حاصل ہے گدائی ترے در کی

پھر اس نے کوئی اور تصور نہیں باندھا

ہم نے جسے تصویر دکھائی ترے در کی

ہے میرے لیے تو یہی معراج عبادت

حاصل ہے مجھے ناصیہ سائی ترے در کی

آیا ہے نصیؔر آج تمنا یہی لے کر

پلکوں سے کیے جائے صفائی ترے در کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]