تھی جہد کی منزل سر کرنی مقسوم ہمارا کیا کرتے

طوفان سے کھیلے اے ہمدم طوفاں سے کنارا کیا کرتے

پُر کر دے ہمارا جامِ تہی ساقی کو اشارا کیا کرتے

ہم اپنی ذرا سے خواہش پر یہ بات گوارا کیا کرتے

ہر سو تھے مقابل فتنۂ غم دل ایک ہمارا کیا کرتے

کرنا ہی پڑا ان سب سے ہمیں ہنس ہنس کے گزارا کیا کرتے

بے پردگی حسنِ کامل پردہ ہی رہی موسیٰ کے لیے

جب آنکھ تھی بند اور ہوش نہ تھا ایسے میں نظارہ کیا کرتے

یہ اپنی شکستہ حالی میں کیا کام ہمارے آ سکتا

ٹوٹے ہوئے دل کا اپنے ہم پھر لے کے سہارا کیا کرتے

جانا تھا جو بزمِ جاناں میں اس دل کی معیت میں ہم کو

روٹھے کو منایا کیا کرتے بگڑے کو سنوارا کیا کرتے

للچائی ہوئی نظروں کا ہدف بننے کے سوا کیا ہونا تھا

ملتا بھی ہمیں تو ہم لے کر تاجِ سرِ دارا کیا کرتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]