تھی پہلے مستقل جو وہ اب مستقل گئی

حیف آرزو تری کہ جو تھی جان و دل گئی

سوزِ الم میں دل بہ خیالِ گلیم پوش

دوزخ میں جل رہا تھا کہ جنت بھی مل گئی

دل کی کلی کھِلے تو مہک اٹھے جسم و جاں

کس کام کی مرے وہ چمن میں جو کِھل گئی

روحِ لطیف کی نہیں باقی لطافتیں

فعّال آئی ہو کے مگر منفعل گئی

ایماں کی دل میں اب وہ خنک تابیاں کہاں

اب وہ فضائے خوش اثر و معتدل گئی

چارہ گری یہ دیکھیے ذکرِ حبیب کی

ہر زخمِ دل کو کر کے مرے مندمل گئی

یزداں کی بارگاہ سے کیا مانگیے نظرؔ

جب آپ مل گئے مجھے ہر چیز مل گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]