جائے سکوتِ تام ہے اظہار مت تڑپ

پیشِ حضور دیدۂ نَم بار مت تڑپ

تابِ جمال کب ہے تجھے چشمِ آرزو

بہرِ نویدِ موجۂ دیدار مت تڑپ

ناقہ سوار آئے تھے ، ٹھہرے ، چلے گئے

جاتے ہوؤں کو دیکھ کے اب غار مت تڑپ

اُن کے عطا و اذن پہ موقوف ہے چنا

حدِ ادب ہے ! خامۂ بے کار مت تڑپ

یہ رہگزارِ نازِ تمنا ہے ، رُک کے چل

احساس میں بھی خواہشِ رفتار مت تڑپ

اُن کا درِ کرم تو سکینت مآب ہے

آیا ہے در پہ اُن کے تو ، نادار مت تڑپ

رکھتے ہیں وہ ورائے تصور کی بھی خبر

بامِ خیالِ خام کے پندار مت تڑپ

دھڑکن سے بھی قریب ہیں اُن کی عنایتیں

قلبِ حزیں کے حاشیہ برادر مت تڑپ

اُن کے نقوشِ ناز کی تمثیل ہے محال

میرے گمانِ خام کے شہکار مت تڑپ

محشر کی تیز دھوپ میں رکھ اُن کا آسرا

مقصودؔ زیرِ سایۂ دیوار مت تڑپ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]