جانِ عالم کی آرزو تو کریں

دل کی دنیا کو مشکبو تو کریں

راز کی ان سے گفتگو تو کریں

ترک وہ فرقِ ما و تُو تو کریں

کیفِ یادِ حبیب بڑھ جائے

چشمِ تر سے ذرا وضو تو کریں

پھر تری جستجو میں نکلیں گے

پہلے ہم اپنی جستجو تو کریں

مان لیں گے تمہیں مسیحِ زماں

چارۂ قلبِ فتنہ جُو تو کریں

اذنِ ساقی بھی مل ہی جائے گا

اہتمامِ مے و سبُو تو کریں

دل بہل جائے گا نظرؔ اس کو

داخلِ شہرِ آرزو تو کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]