جانے کتنے راز چھپے ہیں ٹھہرے ٹھہرے پانی میں

کون اُتر کر دیکھے اب اس یاد کے گہرے پانی میں

جل پریوں کی خاموشی تو منظر کا ایک دھوکا ہے

فریادوں کا شور مچا ہے اندھے بہرے پانی میں

کوئی سیپ اُگلتی ہے موتی اور نہ موجیں کوئی راز

حرص و ہوا کے ایسے لگے ہیں چار سُو پہرے پانی میں

جھیل کے نیلے آئینے پر پتھر پھینکنے والو تم!

ساحل پر اب بیٹھ کے دیکھو بگڑے چہرے پانی میں

چاہا ہم نے جھیل کنارے چاندنی راتوں میں جن کو

کھلتے ہیں بَن بَن کے کنول وہ پھول سے چہرے پانی میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]