جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں

ہم ہوئے کیسے جدا یاد نہیں

ایک شعلہ سا اٹھا تھا دل میں

جانے کس کی تھی صدا یاد نہیں

ایک نغمہ سا سنا تھا میں نے

کون تھا شعلہ نوا یاد نہیں

روز دہراتے تھے افسانۂ دل

کس طرح بھول گیا یاد نہیں

اک فقط یاد ہے جانا ان کا

اور کچھ اس کے سوا یاد نہیں

تو مری جان تمنا تھی کبھی

اے مری جان وفا یاد نہیں

ہم بھی تھے تیری طرح آوارہ

کیا تجھے باد صبا یاد نہیں

ہم بھی تھے تیری نواؤں میں شریک

طائر نغمہ سرا یاد نہیں

حال دل کیسے تبسمؔ ہو بیاں

جانے کیا یاد ہے کیا یاد نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]