جانے کیوں؟

اب تو تم یاد بھی نہیں آتیں

اب کوئی بات بھی نہیں ہوتی

اب تو دل ٹوٹنے کا ڈر بھی نہیں

اب تو خدشہ نہیں جدائی کا

اب تو کھونے کو کچھ نہیں باقی

چاند ہمدردیاں نہیں کرتا

اب ستاروں سے بات چیت نہیں

اب کہاں انتظار راتوں کا

اب تو دن بھی اداس رہتے ہیں

اب تو خط بھی مجھے نہیں آتے

کوئی پیغام بھی نہیں لاتا

اب تو معمول ہی کچھ ایسا ہے

پھر بھی مجھ کو سمجھ نہیں آتا

آنکھ میں کیوں نمی سی رہتی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]