جب ان کا ذکرِ محبت مری زباں سے چلا

سر شکِ اشک بھی پہنائیِ نہاں سے چلا

بندھا تھا تارِ نبوت جو اس پہ ختم ہوا

یہ سلسلہ نہ پھر آگے شہِ شہاں سے چلا

خبر کسے تھی کہاں پر ہے اور کیسا ہے

پتہ خدا کا ہمیں شاہِ انس و جاں سے چلا

ہے اس کا زخمِ محبت قلوب میں گہرا

سراغ اس کا مجھے آہِ عاشقاں سے چلا

اسے تھی ایک ہی منزل حریمِ پاک خدا

وہ دم زدن میں رسا تھا جو خاکداں سے چلا

نقوشِ پا سے اجاگر ہے رہگذارِ حیات

دئیے جلا کے چلا وہ جہاں جہاں سے چلا

تھا غم زدہ شبِ ہجرت دلِ شہِ خوباں

کہ جب حرم سے اٹھا بزمِ دوستاں سے چلا

تھا پھول پھول فسردہ کلی کلی خاموش

وہ دارِ خلد کو جب میرے گلستاں سے چلا

دیارِ پاک چلے کارواں پئے دیدار

کوئی کہاں سے چلا ہے کوئی کہاں سے چلا

نہ دل ہوا کسی صورت نظرؔ شریکِ سفر

میں واپسی پہ اکیلا اس آستاں سے چلا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]