جب تلک باقی رہے آنکھوں میں بینائی دکھا

جو دکھانا چاہتا ہے ، عہدِ رسوائی دکھا

لے ترے قدموں میں لا ڈالا ہے اپنی لاش کو

اب اگر اعجاز رکھتا ہے ، مسیحائی دکھا

خون سے لکھے ہوئے اشعار کی تشہیر پر

جو ترے حصے میں آئی وہ پذیرائی دکھا

تیری ہئیت ہی سراپا تذکرہ ہے دشت کا

کیا ضرورت ہے کہ اس کو آبلہ پائی دکھا

کب تلک ناچوں گا اپنی ذات کے زندان میں

ائے تماشہ گر ، مجھے کوئی تماشائی دکھا

ڈوبنا حسرت بھی ہے لیکن مری توہین بھی

جو مرے شایان ہو پہلے وہ گہرائی دکھا

تو اکھاڑے میں فقط تفریح کا سامان ہے

کھیل کو دلچسپ کر تھوڑی سی پسپائی دکھا

تیرگی میں روشنی کی کوئی تو تدبیر کر

آگ ہی مجھ کو بھلے ائے میری تنہائی دکھا

آرزو کی پشت سے پوشاکِ خاموشی اُلٹ

عشق کی سفاکیت کی کارفرمائی دکھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]