جب حِرا کا پیامِ ہُدٰی نُور ہے

پھر سراسر وہ غارِ حِرا نُور ہے

وہ جہاں سے بھی گزریں وہیں روشنی

ہر قدم آپ کا مرحبا ! نُور ہے

نورِ عالم کا قعدہ رکوع و سجود

’’میرے آقا کی ہر اِک ادا نُور ہے‘‘

پل میں کایا پلٹ دے نظر آپ کی

چہرۂ والضّحٰی بانٹتا نُور ہے

نُورِ اوّل خُدا نے بنایا اُنہیں

ہیں وہ نُورِ ازل ، ابتدا نُور ہے

قدسیوں کا بھی ہے آنا جانا جہاں

ان کی چوکھٹ پہ صُبح و مَسا نُور ہے

ہے جہاں شاہِ کونین کا آستاں

اُس نگر کی تو ساری فضا نُور ہے

تیری ذاتِ عُلٰی شان تیری جدا

تیرا خُلقِ حَسَن بھی شہا ! نُور ہے

ہے جلیل اس کا عکسِ عیاں چاند میں

جس کو ذاتِ احد نے کہا نُور ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]