جب خزاں آئے تو پتّے نہ ثَمَر بچتا ھے

خالی جھولی لیے ویران شجَر بچتا ھے

نُکتہ چِیں ! شوق سے دن رات مِرے عَیب نکال

کیونکہ جب عَیب نکل جائیں، ھُنَر بچتا ھے

سارے ڈر بس اِسی ڈر سے ھیں کہ کھو جائے نہ یار

یار کھو جائے تو پھر کونسا ڈر بچتا ھے

روز پتھراؤ بہت کرتے ھیں دُنیا والے

روز مَر مَر کے مِرا خواب نگر بچتا ھے

غم وہ رستہ ھے کہ شب بھر اِسے طَے کرنے کے بعد

صُبحدم دیکھیں تو اُتنا ھی سفر بچتا ھے

بس یہی سوچ کے آیا ھُوں تری چوکھٹ پر

دربدر ھونے کے بعد اک یہی در بچتا ھے

اب مرے عیب زدہ شہر کے شر سے، صاحب

شاذ و نادر ھی کوئی اھلِ ھُنر بچتا ھے

عشق وہ علمِ ریاضی ھے کہ جس میں فارس

دو سے جب ایک نکالیں تو صفَر بچتا ھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]