جب رخ پاک سے پردہ وہ ہٹا دیتے ہیں

بزم احساس کو جلوؤں سے سجا دیتے ہیں

سر جو اس در پہ عقیدت سے جھکا دیتے ہیں

میرے مرشد انہیں ذیشان بنا دیتے ہیں

شاہ نواب کو احوال سناکر دیکھو

کام بگڑے ہوئے جتنے ہیں بنا دیتے ہیں

غنچۂ دل مرا اک آن میں کھل جاتا ہے

اپنے دامن کی وہ جب ٹھنڈی ہوا دیتے ہیں

میرے نواب کی یہ شان کریمی دیکھو

سائلوں کو وہ طلب سے بھی سوا دیتے ہیں

پوچھتے کیا ہو مرے پیر کا رتبہ مجھ سے

رب کے جلوؤں کا وہ دیدار کرا دیتے ہیں

ہر گھڑی لیتے ہیں وہ اپنے غلاموں کی خبر

کون کہتا ہے کہ وہ ہم کو بھلا دیتے ہیں

جب وہ آتے ہیں سر بزم بصد ناز و ادا

ہم گذر گاہ میں دل اپنا بچھا دیتے ہیں

مانگنے کی کبھی زحمت نہیں کرنے دیتے

وہ تو بن مانگے ہی سب رب سے دلا دیتے ہیں

کوئے نواب کے ذروں کو بھی مت جان حقیر

ماہ و انجم کو وہ آئینہ دکھا دیتے ہیں

سیر وہ عالم بالا کی کیا کرتا ہے

نورؔ جس کو وہ نگاہوں سے پلا دیتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]