جب لیتا ہوں میں نام ترا مری صبح حسیں ہو جاتی ہے

ہر سانس مہکنے لگتی ہے تابندہ جبیں ہو جاتی ہے

جب صحن چمن میں جا کر میں کھلتی کلیوں کو دیکھتا ہوں

مرے گرد و پیش کی ساری فضا فردوس بریں ہو جاتی ہے

جو مانگتا ہوں ترے در سے وہ ملنے میں اگر کچھ دیر بھی ہو

اٹھتے ہیں دعا کو ہاتھ جہاں تسکین وہیں ہو جاتی ہے

سب بگڑے کام انسانوں کے بس تیرے کرم سے بنتے ہیں

ہم آس لگا لیتے ہیں کہیں اور پوری کہیں ہو جاتی ہے

مایوس تو ہوں دنیا سے مگر تری رحمت سے مایوس نہیں

ترے ابر کرم سے اک پل میں شاداب زمیں ہو جاتی ہے

ٹھکرا دیتا ہے اک پل میں وہ کون و مکاں کی دولت کو

جب جوشؔ کسی کے دل میں لگن اللہ کی مکیں ہو جاتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]