جذبۂ شوق! انتہا کر دے

ہر تمنا کو بے صدا کر دے

قید اپنی انا کے بُت میں ہوں

کوئی توڑے مجھے رہا کر دے

عمر گزری مری کٹہرے میں

زندگی اب تو فیصلہ کر دے

قد گھٹا دے مری نظر میں مرا

یا الٰہیٰ مجھے بڑا کر دے

فخر کرتی ہے آدمی پہ حیات

جب کسی کا کوئی بھلا کر دے

میرے سر پر نہیں رہے ماں باپ

کوئی میرے لئے دعا کر دے

ہے مبارک وہ سانحہ جو ظہیؔر

بے نواؤں کو ہم نوا کر دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]