جذبۂ عشقِ شہِ ہر دو سرا ہے کہ نہیں

دیکھیے دل کو مسلمان ہوا ہے کہ نہیں

کون سا زیست میں وہ تلخ مزا ہے کہ نہیں

ایسے جینے سے تو مرنا ہی بھلا ہے کہ نہیں

میری ہر بات پہ تم نے جو کہا ہے کہ نہیں

خود ہی سوچو یہی جھگڑے کی بنا ہے کہ نہیں

حوصلہ ہے کہ میں محرومِ بیاں رکھتا ہوں

کون سا تجھ سے مجھے ورنہ گِلہ ہے کہ نہیں

اس قدر مشقِ ستم دل پہ عیاذاً باللہ

ارے ظالم تجھے کچھ خوفِ خدا ہے کہ نہیں

وائے تقدیر سنبھلتا ہی نہیں حالِ نظرؔ

کون سی ورنہ دوا اور دعا ہے کہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]