جذبۂ عشق نے سینے میں مچلنا سیکھا

آپ آئے تو زمانے نے سنبھلنا سیکھا

گُنگ لمحوں کو ہوئی قوتِ اظہار عطا

دامنِ خیر میں حق بات نے پلنا سیکھا

کفر اور شرک کے سب بُت ہوئے ریزہ ریزہ

حق کے انوار میں ظلمات نے ڈھلنا سیکھا

پہنا انسان نے اس وقت لباسِ عظمت

سایۂ خیر میں جب صِدق نے پلنا سیکھا

پائی بھٹکے ہوئے انساں نے یقین کی منزل

نورِ قرآن نے سینوں میں اُترنا سیکھا

ہوئی سیراب زمانے کی یہ ویراں دھرتی

چشمۂ حق نے مدینے سے ابلنا سیکھا

ملی بے راہ زمانے کو قیادت ان کی

راہِ تہذیب پہ انسان نے چلنا سیکھا

آپ کے دم سے سہارے ملے بے کس دل کو

نئے انداز سے دنیا نے سنبھلنا سیکھا

ظلمتِ دَہر نے پھر دیں کے اُجالے دیکھے

شمعِ توحید نے جب طیبہ میں جلنا سیکھا

دے گئے دیر کو وہ درسِ اُخوت خالد

پیار کے رنگ میں نفرت نے بھی ڈھلنا سیکھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]