جسم میں گونجتا ہے روح پہ لکھا دکھ ہے

تو مری آنکھ سے بہتا ہوا پہلا دکھ ہے

کیا کروں بیچ بھی سکتا نہیں گنجینۂ زخم

کیا کروں بانٹ بھی سکتا نہیں ایسا دکھ ہے

یہ تب و تاب زمانے کی جو ہے نا یارو

کیجیے غور تو لگتا ہے کہ سارا دکھ ہے

تم مرے دکھ کے تناسب کو سمجھتے کب ہو

جتنی خوشیاں ہیں تمہاری مرا اتنا دکھ ہے

ایسا لگتا ہے مرے ساتھ نہیں کچھ بھی اور

ایسا لگتا ہے مرے ساتھ ہمیشہ دکھ ہے

مجھ سے مت آنکھ ملاؤ کہ مری آنکھوں میں

شہر کی زرد گھٹن دشت سا پیاسا دکھ ہے

لے گئے لوگ وہ دریائے جواں اپنے ساتھ

اور مرے ہاتھ جو آیا ہے وہ صحرا دکھ ہے

کیا بتاؤں کہ لیے پھرتا ہوں دکھ کتنے قدیم

تم سمجھتی ہو فقط مجھ کو تمہارا دکھ ہے

اس کے لہجے میں تھکن ہے نہ ہی آثار مرگ

اس کی آنکھوں میں مگر سب سے انوکھا دکھ ہے

ہم کسی شخص کے دکھ سے نہیں ملتے حیدرؔ

جو زمانے سے الگ ہے وہ ہمارا دکھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]