جسے عشق شاہ رسولاں نہیں ہے

مسلماں نہیں ہے، مسلماں نہیں ہے

نہ ہوں جس میں نور نبی کی ضیائیں

وہ ایماں نہیں ہے وہ ایماں نہیں ہے

نہ ہو جس میں دید مدینہ کا اماں

وہ دل دل نہیں ہے، وہ جاں جاں نہیں ہے

وہی تو ہیں وجہ بنائے دو عالم

بھلا ان کا کس شے پہ احساں نہیں ہے

رسائی نہیں اس کی ذات خدا تک

جسے ذات احمد کا عرفاں نہیں ہے

انہیں کی ضیائیں ہیں کون و مکاں میں

کہاں یہ تجلی فروزاں نہیں ہے

پڑھوں نعت بہزاد طیبہ میں جا کر

بجز اس کے اب کوئی ارماں نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]