جس شہر میں سحر ہو وہاں شب بسر نہ ہو

ایسا بھی عا شقی میں کوئی در بدر نہ ہو

کوشش کے باوجود نہ ہو ، عُمر بھر نہ ہو

اللہ کرے کہ مجھ سے ترا غم بسر نہ ہو

فارس! اسیرِ حلقۂ دیوار و در نہ ہو

وحشت کی پہلی شرط یہی ہے کہ گھر نہ ہو

اُس کا یہ حکم ہے مجھے جاتا ہوا بھی دیکھ

اور یہ بھی شرط ہے کہ میاں آنکھ تر نہ ہو

رُخصت نہ مانگ ورنہ تجھے روک لُوں گا میں

یُوں مجھ کو چھوڑ جا کہ مجھے بھی خبر نہ ہو

نظروں سے لوگ گزریں گے لیکن خدا کرے

دل سے ترے علاوہ کسی کا گذر نہ ہو

یہ عشق کی ہے شرط کہ جو کچھ بھی پیش آئے

اے دِل ! ترا معاملہ زیر و زبر نہ ہو

باقی ہے کچھ خمار ابھی پچھلے عشق کا

اے تازہ عشق! دیکھ ابھی میرے سر نہ ہو

اس شرط پر چلوں گا ترے ساتھ، بے خودی

تیرے علاوہ کوئی مرا ہمسفر نہ ہو

رُخسارِ یار کے تو ہیں بیمار سینکڑوں

تقسیم ایک انار کدھر ہو ، کدھر نہ ہو

تُو نے ہر ایک حرف کو حرفِ دُعا کیا

فارس ترے کلام میں کیسے اثر نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]