اردوئے معلیٰ

Search

آج انگریزی زبان کی ممتاز مصنفہ، شاعرہ، صحافی، پبلشر اور مدیر بیگم زیب النسا حمید اللہ کا یومِ پیدائش ہے ۔

(پیدائش: 25 دسمبر 1921ء – وفات: 10 ستمبر 2000ء)
——
زیب النسا حمید اللہ مشہور انگریزی جریدے مرر کی ایڈیٹر تھیں۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں۔
زیب النسا حمید اللہ 25 دسمبر، 1921ء کو کلکتہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ ڈان سے کیا۔ اکتوبر 1951ء میں انہوں نے کراچی سے مشہور انگریزی جریدے مرر کا اجرا کیا جو اپنے گیٹ اپ اور خبروں اور مضامین کی خوب صورت پیشکش کی وجہ سے بہت جلد پاکستان کا ایک مقبول جریدہ بن گیا۔ یہ جریدہ اپریل 1972ء تک جاری رہا۔ اس دوران اسے ایک مرتبہ بندش کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر بیگم زیب النسا حمید اللہ نے اس بندش کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا۔ جہاں ان کے حق میں فیصلہ ہوا اور یوں مرر کی اشاعت دوبارہ بحال ہو گئی۔ بیگم زیب النسا حمید اللہ انگریزی زبان کی شاعرہ بھی تھیں، ان کے شعری مجموعے The Indian Bouqet، The Lotus Leaves اور The Flute of Memory کے نام سے شائع ہوئے
——
تصانیف
——
Indian Bouquet – 1941
Lotus Leaves – 1946
Sixty Days in America- 1956
The Young Wife – 1958
The Flute of Memory – 1964
Poems – 1972
——
بیگم زیب النسا حمید اللہ 10 ستمبر، 2000ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئیں۔
——
بہادر صحافی خاتون از عرفان اعجاز
——
پاکستان کی تاریخ بہت سے نامور صحافیوں،مصنفین اور ادیبوں سے بھری پڑی ہے لیکن افسوس آج کل کے دور میں ان کو یاد نہیں کیا جاتا بلکہ نوجوان نسل تو ان کو جانتی بھی نہیں اور ان کے بارے کچھ سننا بھی گوارا نہیں کرتی کیونکہ وہ فیس بک،وٹس اپ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر مصروف ہوتے ہیں جی ہاں آج میں نے اپنا قلم اٹھایا تو سوچا کسی نامور شخص کے بارے لکھوں چھان بین کی بہت کچھ پڑھا لیکن جس کے بارے لکھنے کا موقع ملا وہ بیگم زیب النسا حمید اللہ ہیں جو25دسمبر1921میں واجد علی جو کہ پہلے لکھاری تھے جنہوں نے علامہ محمد اقبال کی شاعری کو بنگالی زبان میں ترجمہ کیا کے گھر پیداہوئیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : رحمت النساء ناز کا یوم پیدائش
——
ادب گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے شروع سے ہی لکھنے اور پڑھنے کا شوق رکھتی تھیں وہ پہلی پاکستانی خاتون تھیں جنہوں نے انگریزی زبان میں اپنا کالم شائع کروایا ۔روزنامہ ڈان اخبار کے ساتھ وابستہ رہیں اور بے شمار کالم لکھے جس کے ذریعہ انہوں نے معاشرے میں ہونے والی برائیوں کو اجاگر کیا اس کے ساتھ ساتھ وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے "جامعہ الازہر قاہرہ” میں خطاب کیا قسمت کی دیوی ان پر مہربانی ہونا شروع ہوئی تو انہوں نے دن دگنی رات چگنی ترقی شروع کر دی روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے کالم کے قارئین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا 1940میں وہ مشہور پنجابی گھرانے کے سپوت خلیفہ محمد حمید اللہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں خلیفہ محمد حمید اللہ 1947میں باٹا شوز میں بطور ایگزیکٹو ملازمت کرتے تھے پاکستان کی آزادی کے بعد ان کو باٹا شوز پاکستان کا ہیڈ بنا دیا گیا اور آئر لینڈ بھیج دیا گیا بیگم زیب النساء حمید اللہ بھی ان کے ساتھ وہیں چلی گئیں
1947کے بعد زیب النسا حمید اللہ نے سوچ لیا کہ وہ شعبہ صحافت میں بھرپور انداز میں قدم جمائیں گی لہذا انہوں نے عورتوں کے مسائل کے حوالے سے کالم نگاری کا آغاز کیا اور روزنامہ ڈان کے ساتھ منسلک رہیں انہوں نے سیاسی کالم نگاری کا بھی آغاز کیا بیگم زیب النساء کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون سیاسی مبصر ہیں ان کے سیاسی کالم پر ایڈیٹر کو اعتراض تھا ایڈیٹر چاہتا تھا کہ صرف خواتین کے مسائل اجاگر کیے جائیں اس بنا پر ان کی ایڈیٹر سے نوک جھونک ہوئی اور1951میں روزنامہ ڈان کو خیر آباد کہہ دیا اس کے بعد انہوں نے اپنا ذاتی رسالہ ماہنامہ آئینہMonthly MIRRORکے نام سے جاری کیا جس کی ایڈیٹر اور پبلشر وہ خود تھیں دیکھتے ہی دیکھتے MONTHLY MIRRORایک مشہور رسالہ بن گیا اور قارئین کی تعداد میں اضافہ شروع ہو گیا اس کے ساتھ ہی وہ PWWAکی ممبر بن گئیں اور خواتین کے مسائل کو ہر فورم پر اجاگر کیا ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رانا لیاقت کی بہترین دوست بھی تھیں 1957میں ایوب خان اور حسین شہید سہروردی کی حکومتوں کی چپکلش کی بنا پر ان کے رسالہ کو بند کر دیا گیا لیکن انہوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس وقت کے مشہور قانون دان اللہ بخش کریم بخش بروہی جوکہ جانے پہچانے قانون دان کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی نام رکھتے تھے اور ان کی بہن کی شادی سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے ساتھ ہوئی لیکن ان کی بہن کینسر کی بیماری کی وجہ سے 1971میں وفات پا گئیں تھیں اس کے ساتھ اللہ بخش کریم بخش بروہی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ انڈیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر بھی رہے ۔ اللہ بخش کریم بخش بروہی نے زیب النساء کے حکم کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیس دائر کر دیا اور بروہی کے دلائل کے بعد سپریم کورٹ نے زیب النساء کے حق میں فیصلہ سنایا اور حکومت کے اس اقدام پر ان کو جو نقصان ہوا وہ بھی ادا کیا جو کہ شعبہ صحافت میں بہت بڑا اعزاز ہے ۔کیس جیتنے کے بعد زیب النساء کو ایک اور اعزاز یہ بھی حاصل ہواکہ وہ پہلی خاتون صحافی بن گئیں جنہوں نے سپریم کورٹ میں کیس جیتا ہو1961میں انہوں نے اپنا پرنٹنگ پریس Mirrorپریس کے نام سے بنایاجس میں انہوں نے بے شمار لوگوں کو روزگار مہیا کیا ۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کے دور میں ایک کالم لکھا جس کا عنوان "Please,My President”تھاجو کہ بہت جذبات سے بھرا ہوا تھا جس میں لوگوں کے مسائل اور ان کے حل کی تدابیر درج تھیں حکومت نے کالم کو یکسر مسترد کر دیا حتیٰ کہ MIRRORکئی بارپابندی سے بچا اسی عرص میں دو بار پابندی بھی برداشت کرنا پڑی۔اس کے ساتھ انہوں نے بے شمار کالم لکھے جن میں سے کچھ یہ ہیں ۔”براہ مہربانی جناب صدر”،”نہیں،تم،جناب کا شکریہ!”،اور” پشار سے چٹاکانگ تک پاکستانیوں ،رو رہی ہو” جسے کالم لکھے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : کوئی پا نہیں سکتا پایانِ زہرا
——
1970میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ ڈبلن آئر لینڈ چلی گئیں لیکن باقاعدگی سے پاکستان کا دورہ کرتی رہتیں۔اسی عرصے میں وہ پاکستان آئیں اور پھر سے کالم نگاری کا آغاز کیا اوہ روزنامہ جنگ کے رسالہ MAGمیں”بلند آواز میں سوچ رہے ہیں”کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا1983میں ان کے شوہر کاہارٹ اٹیک کے باعث انتقال ہوگیا زیب النساء کی دو بیٹیاں نیلو فر اور یاسمین تھیں۔
آخر یہ چمکتا ہوا ستارا 9ستمبر2000میں پھیپڑوں کے عارضہ میں مبتلا ہو گیااور ہسپتال میں داخل رہیں لیکن 10ستمبر2000کے سورج چمکنے سے پہلے ہی اس دنیا فانی سے کوچ کرگئیں ان کے حق اشاعت ان کی چھوٹی صاحبزادی یاسمین کے حوالے کیے گئے ان کی دیگر کہانیوں کا چوتھا ایڈیشن ان کی وفات کے آٹھ سال بعد یعنی 2008میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کی جانب سے شائع ہوا
بیگم زیب النساء نے شعبہ صحافت،شعبہ پبلیکشن اور شعبہ ادب میں بہت نام کمایا ان کو ہر موضوع پر لکھنے کا طریقہ معلوم تھا اور انہوں نے کبھی اپنے آپ میں فخر یا غرور محسوس نہ کیا تھا ان کی زندگی سے ایک یہی سبق ملتا ہے کہ پاکستان میں شعبہ صحافت میں ایماندری سے کام کرنا چاہیے کیونکہ جب زیب النساء نے بھی حق اور سچ کی آواز کو بلند رکھتے ہوئے ایک مقام پایا*
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ