جس کی تصویر ہے اِس دلِ پاک میں

اشک بن کر رہا چشمِ نمناک میں

نظم میں خواب تیرا ، غزل میں خیال

اِک دیا بام پر ، اِک دیا طاق میں

خود کو پرواز سے باز رکھنا پڑا

تھے شکاری مسلسل مِری تاک میں

کس تپش سے جلا آشیانِ وجود

ہوگا کوئی شرارہ بجھی راکھ میں

شعر کے فن میں کیا مرتضیٰ کی بساط

کیسے کیسے گہر مل گئے خاک میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]