جس کی منزل بھی درِ سیدِ ابرار نہیں

ہو گا انسان مگر وہ مرا دلدار نہیں

صرف دنیا میں نہیں حشر کے دن بھی لوگو

دامنِ سرورِ عالم کسے درکار نہیں

روح بھی اپنی درودوں سے معطر رکھنا

چند آنسو تو وہاں قرب کا معیار نہیں

در بدر قریہ بہ قریہ ہی پھرے گی دانش

مرکزِ فکر اگر کوچہِ سرکار نہیں

اُنکے قدمین کا صدقہ ہے یہ ساری رونق

ورنہ دنیا تری قسمت میں تو انوار نہیں

نسبتِ سرورِ کونین کا وہ نام نہ لے

لہجے کی تلخی پہ جو شخص بھی مختار نہیں

ہر کڑے وقت میں اُنکا ہے تصور مرہم

اُنکی چاہت ہے تو پھر جینا بھی دشوار نہیں

تیری نسبت پہ فقط ناز ہے آقائے شکیلؔ

بن تمہارے مرا کوئی بھی طرفدار نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]