جلائے رکھتی ہوں دل میں تری ثنا کے چراغ

جگا رہے ہیں تخیل ، تری وِلا کے چراغ

ترے ہی نُور سے روشن ہوئے ہیں دونوں جہاں

ہیں مہر و ماہ، ستارے تری ضیا کے چراغ

اندھیری شب کا تصور نہیں حیات میں اب

’’حریمِ جاں میں ہیں روشن تری عطا کے چراغ‘‘

خوشا نصیب کہ شہرِ کرم میں آئی ہوں

جلے ہیں اُن کی رضا سے مری دعا کے چراغ

ملی ہے عشقِ محمد سے روشنی جن کو

وہی تو رکھے ہیں میں نے بچا بچا کے چراغ

خدا تو مالکِ کُل ہے حُضور قاسم ہیں

انہی کے پاس خزانے ہیں اور سخا کے چراغ

وفا کی روشنی بڑھ کر ہے ان اجالوں سے

یہی بتایا تھا ، شبیر نے بجھا کے چراغ

اے نازؔ کاش تُو ہوتی کنیز زہرہ کی

تو اُن کے حجرے میں رکھتی جلا جلا کے چراغ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]